Black hole by Ibn e Adam episode 4 (BOLD VERSION)

  Black hole by Ibn e Adam episode 4 

(BOLD VERSION)

Black hole by Ibn e Adam episode 4 (BOLD VERSION)


(فائمہ کا ماضی)

 

زندگی کے اس سفر میں ہمارے ساتھ حیران کن اور تعجب خیز ہی نہیں ایسے واقعات بھی پیش آ سکتے ہیں جنہیں ہم اپنی عقل کے مطابق سوچنے اور اپنے علم کی بنیاد پر کھوجنے کی ہر کوشش میں ناکام رہتے ہیں ماورائے عقل کوئی بھی واقعہ یقیناً ناقابل فراموش یاد بن جاتا ہے لیکن ہم کبھی اس کی حقیقت نہیں جان پاتے___روکو فارس کیا اس کی مثال میں دوں؟؟ فائمہ نے ایک دم فارس کو ٹوک دیا تھا

کیا تمہارے پاس کوئی ایسی یاد ہے؟ فائمہ اس کے تجسس کو دیکھتے ہوئے بستر سے اٹھ بیٹھی تھی

 

ہاں فارس تمہارا ایک رات میں میرا تھیسز مکمل کروا دینا حالانکہ تم ایک دن بھی یونیورسٹی نہیں گئے تھے مجھے آج بھی اس سب پر بلکل بھی یقین نہیں آتا___وہ فائمہ کا جواب سنتے ہی بے اختیار مسکرا دیا تھا

مجھے لگا تھا تم کسی اور رات کا ذکر کرنی والی ہو___فائمہ اس ذومعنی جملے کو سمجھ گئی تھی

کوئی اور رات...... تم تو صرف ان درختوں سے اور جنگلوں سے پیار کرتے ہو ناں

کیوں ان سے پیار نہیں ہو سکتا کیا؟

شاید ہوتا ہو فارس

کائنات کا سارا نظام ہی محبت کا عکاس ہے پھر بھی نجانے کیوں محبت کے تصور پر ہی انسان کی سوچ مرد و عورت کے تعلق تک محدود ہو جاتی ہے___فارس نے ہمیشہ کی طرح فائمہ پر اپنی فلاسفی جھاڑی تھی وہ ہمیشہ ہی ایسا کرتا تھا ان کی ملاقات چھ مہینے پہلے ہوئی تھی جب فائمہ اپنی سٹڈی ریسرچ کے لئے شہر سے دور ایک چھوٹے سے گاؤں کے پاس بنے ان خوبصورت جنگلات میں آئی تھی اور پھر ایک طرح سے یہاں کی ہو کر رہ گئی تھی فارس سے ملنے کے بعد ان جنگلات میں ریسرچ کرنا تو صرف ایک بہانہ تھا حقیقت میں تو فارس کی کشش اسے ایک پررونق یونیورسٹی سے ان ویران جنگلات میں لے آتی تھی اس کو یونیورسٹی کی لیب سے زیادہ مزہ اس چھوٹے سے گھر میں آتا تھا جو جنگل کے بلکل درمیان میں ایک ندی کنارے موجود تھا اس گھر می‍ں بہت سی سہولیات نہی‍ں تھی درختوں کی ٹہنیوں اور پتوں سے بنا ایک بستر کھانے کی چند بنیادی چیزیں اور کچھ ضروری سامان یہی فارس کی کل کائنات تھی فائمہ کے یہاں آنے کے بعد اس گھر میں چند کتابوں اور کچھ ریسرچ میٹریل کا اضافہ ضرور ہو گیا تھا وہ خوبصورت تھا،دراز قد تھا رومانوی تھا مگر دنیا سے بلکل عاجز!!! اس کا اس دنیا کو دیکھنے کا انداز بہت مختلف تھا ماضی کے کچھ واقعات نے اس کی زندگی پر ایسا اثر کیا تھا کہ اس نے خود کو ہمیشہ کے لئے ان جنگلوں میں محدود کر لیا تھا

انسان زندگی میں کتنی بار پیار کر سکتا ہے فارس؟ ایک بار ناں؟فارس کو خاموش دیکھ کر اس نے خود ہی جواب دے دیا تھا

نہیں ہر بار!!! انسان کو ہر اس چیز سے محبت ہو جاتی ہے جو اس کی دسترس سے باہر ہو وہ الگ بات ہے کہ وہ خود سے ہی جھوٹ بولتا ہے خود کو ہی دھوکہ دیتا ہے

نہیں غلط تم یہاں بھی غلط ہو فارس انسان کو محبت صرف ایک بار ہوتی ہے یہی حضرت انسان کی نیچر ہے

 

مگر فائمہ نیچر کے ساتھ فطرت کا وجود بھی تو ہے جب تک انسان اپنی نیچر پر رہتا ہے اسے ہر خوبصورت چیز اچھی لگتی ہے جیسے ہی اس پر فطرت غالب آتی ہے وہ اپنی پسند و ناپسند کا میعار اپنی ضروریات کے حساب سے ایڈجسٹ کرنا شروع کر دیتا ہے اور پھر وہ بیوقوف خود سے جھوٹ بولتا ہے

جیسے تم بولتے ہو!!! وہ گہرے لہجے میں بولی تھی____یہ جھوٹ کے تمہیں اس دنیا کی ضرورت نہیں حالانکہ تمہیں اس کی ضرورت ہے

تم نے کبھی بلیک ہول کے بارے میں پڑھا ہے؟ وہ سوالیہ انداز میں اس سے مخاطب ہوا

ہاں وہ دور آسمانوں میں اس کائنات سے کوسوں دور خلا کی ایک اندھیری دنیا می‍ں ایک بہت بڑا ہول ہے جس میں صرف اندھیرا ہی اندھیرا ہے مگر اس کی خاصیت یہ ہے کہ وہ اپنے قریب سے گزرنے والے ہر سیارے کو اپنے اندر کھینچ لیتا ہے اور پھر وہ سیارہ کبھی اس ہول سے باہر نہیں نکل پاتا ایک طرح سے اس کا قیدی بن کر رہ جاتا ہے____وہ فائمہ کے بولتے چہرے کو مسلسل دیکھ رہا تھا

تمہاری اس دنیا کی مثال بلکل اسی بلیک ہول کی مانند ہے جو بھی خواہشات کی ٹوکری لے کر اس میں جاتا ہے وہ ہمیشہ کے لئے اس کا قیدی بن کر رہ جاتا ہے اور پھر کوئی طاقت اسے اس بلیک ہول سے نہیں نکال سکتی

 

تو کیا ہم سب دنیا دار قیدی ہیں___ہاں تم سب قیدی ہو اس بلیک ہول کے!!! نفس کی خواہشات نے سب کو اپنا قیدی بنا رکھا ہے

تو کیا تم نفس کے قیدی نہیں ہو فارس؟

 بلکل نہیں

تو تمہارا اس رات میرے قریب آنا کیا تمہارے نفس کی خواہش نہیں تھی؟

وہ صرف ایک فون کال تھی فائمہ

صرف ایک کال؟

میرے خیال سے تو یہی تھا

جب ایک لڑکی سارا دن کسی کے ساتھ تنہا رہے اور پھر رات کو وہی شخص اچانک فون کر کے اس لڑکی کے جذبات بھڑکانے کی کوشش کرے تو کیا تب بھی وہ صرف ایک فون کال ہی رہے گی؟ کیا کہا تھا تم نے فارس کہ مجھے تمہاری نازکی کا احساس دوران وصال بھی رہے گا

اس نے ہمت جمع کرتے ہوئے اس فون کے ریلیشن کی کہانی کو آج ڈسکس کرنے کی ٹھان لی تھی جو کئی دنوں سے صرف فون کالز تک محدود تھا اگرچہ ان کی ملاقات روز ہوتی تھی مگر ان فون کالز کے متعلق وہ ہمیشہ انجان بنے رہتے تھے

تم نے کبھی مجھے چھوا تک نہیں تمہیں میری نازکی کا احساس کب ہوا یا میں یہ سمجھوں یہ مجھے پھسلانے کی ایک چال تھی

یہی خامی ہے تم لوگوں میں کہ ہر رشتے کو تم لوگ صرف ایک چال سمجھتے ہو تم لوگ خواب تو دیکھتے ہو مگر جب وہ خواب حقیقت بننے لگتے ہیں تو تمہیں ان سے ڈر لگنے لگتا ہے!!! تمہارے جسم کی نازکی نیچرل ہے اور نیچر کی خوبصورتی یہی ہے کہ اس کو کسی غلاف میں چھپایا نہیں جا سکتا مجھے تمہاری نازکی کا احساس تمہاری آنکھوں سے ہوا تھا مجھے یقین ہے کہ تمہیں چھونے سے زیادہ دل فریب تمہیں محسوس کرنا ہے

مجھے تمہاری باتوں سے شدید احساس ہوتا ہے کہ تم مجھے ضرور چھونا چاہو گے کیا تمہیں مجھ سے کوئی پیار تو نہیں ہو رہا؟

نہیں مجھے صرف محسوس کرنے کی طلب ہے کیونکہ ہمارے راستے بہت مختلف ہیں تمہیں دنیا کی رونقیں اور رشتے لبھاتے ہیں اور مجھے دنیا کی ہر چیز سے دور رہنا پسند ہے

میں بھی تو اسی دنیا کا حصہ ہوں فارس

کاش تم ہمیشہ نیچرل رہتی

یہ سب باتیں تم اب صرف اس لئے کر رہے ہو کیونکہ میں تمہیں بتا چکی ہوں کہ مجھے لندن جانا ہے اور اب تم مجھے روکنا چاہتے ہو

کیا مجھے تمہیں روکنا چاہیے؟؟وہ سوالیہ انداز میں مخاطب ہوا تھا

 میرا بس چلے تو میں تمہیں اپنے ساتھ لے جاتی__فائمہ نے اپنا ارادہ ظاہر کیا

تمہارا بس تو خود پر نہیں چلتا مجھ پر کیا چلے گا

 

تم اچھے سے جانتے ہو کہ میری بہن ماہا اس دنیا میں موجود میرا اکلوتا رشتہ ہے اور میں اس کی مرضی کے بغیر کچھ نہیں کر سکتی

میں تو یہ بھی اچھے سے جانتا ہوں کہ وہ تمہیں صرف اپنے فائدے کے لیے استعمال کرتی ہے وگرنہ اگر اسے تمہاری خوشی عزیز ہوتی تو وہ کبھی تمہیں لندن جانے کے لئے فورس نہیں کرتی

میرا اس کے سوا ہے ہی کون فارس؟

زندگی رشتوں کی محتاج نہیں ہوتی فائمہ

مگر رشتے انسانوں کے لئے ہی بنے ہیں

 

تم میری آنکھوں میں دیکھ کر بتاؤ کیا تم ماہا سے مطمئن ہو؟

 شاید نہیں مگر اتنا اطمینان ہے کہ میری بہن میرے لئے کبھی غلط نہیں سوچے گی

میری ہزار دلیلیں بھی تمہیں اس بلیک ہول سے دور نہیں رکھ سکتی اور یہی حقیقت ہے

شاید ایسا ہی ہو فارس خیر رات ہونے والی ہے مجھے گھر جانا چاہیے___وہ اس بستر سے اتر کر واپس جانے کی تیاری کرنے لگی

اس کی شدید خواہش تھی کہ فارس لندن ضرور جاتا مگر ایک جھوٹی انا اس کو محبت اور ہمیشہ ساتھ رہنے کی خواہش کا اظہارِ کرنے سے روکے ہوئے تھی ہر لڑکی کی  طرح فائمہ بھی اپنے لئےکسی خاص کی محبت دیکھنا چاہتی تھی مگر اس کا خاص کچھ اور ہی نظریات رکھتا تھا اس نے اپنے چند ضروری پیپر لئے اور اس چھوٹے سے گھر سے نکل کر باہر آئی جہاں ہلکا ہلکا اندھیرا چھانے لگا تھا اس نے ابھی دہلیز پار ہی کی تھی کہ فارس نے اسے بانہوں میں دبوچتے ہوئے ایک گھنے سے درخت کے ساتھ لگا دیا اور خود کو اس کے چہرے پر جھکاتے ہوئے اسکے ہونٹوں پر ٹوٹ پڑا یہ سب اتنا اچانک تھا کہ فائمہ خود بھی سمجھ نہیں پائی تھی اس کی مزاحمت بھی چند لمحوں تک کی تھی اگرچہ یہ سب پہلی بار ہوا تھا مگر وہ اس سب سے بلکل انجان نہیں تھی وہ ایک لمبا عرصہ یونیورسٹی لائف گزار آئی تھی جہاں ریلیشن شپ میں یہ سب نارمل تھا مگر اسے اس نارمل چیز تک پہنچنے میں بھی چھ مہینے لگے تھے شاید وہ ڈرتی تھی وہ اس بوس و کنار سے اپنے خیالات میں کئی بار محضوض ہوئی تھی

چاہے جانے کا احساس محسوس کرنا ہر کسی کا دیرینہ خواب ہوتا ہے جس کی تعبیر اس کی شخصیت کو نکھار دیتی ہے اور یہ نکھار اس وقت اور بھی زیادہ اثر دیکھاتا ہے جب کسی ایسے شخص کو محبت  اور تعریف و توجہ ملے جو ہمیشہ سے اس سے محروم رہا ہوچ

 یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا اور شاید ہمیشہ اسی طرح چلتا رہتا اگر ماہا کی ضد اسے لندن جانے پر مجبور نہ کرتی جائز و ناجائز کی بحث سے کوسوں دور اپنی اپنی حدود کا تعین کئے وہ اس الگ تھلگ دنیا میں بلکل خوش تھے کہ وہ دن آ پہنچا جب ان کی ملاقات آخری تھی وہ ایک خوبصورت رات کا دلفریب لمحہ تھا جب وہ ایک پرسکون دنیا میں تنہا بیٹھے تھے ہلکی ہلکی ٹھنڈی ہوا کے جھونکے روشنی کے لئے جلائی گئی لکڑیوں کی آگ کو جوش دے رہے تھے جس کی روشنی فائمہ کے اداس چہرے کو روشن کر رہی تھی وہ دو مخالف سمت میں چلتی کشتیوں کی مسافر بن کر رہ گئی تھی ایک طرف ماہا اسے ہر صورت لندن اپنے پاس بلانا چاہتی تھی وہ خود چند ماہ پہلے ہی وہاں گئی تھی اور اسے لگتا تھا کہ فائمہ کی زندگی لندن میں زیادہ اچھی گزر سکتی ہے ماہا نے فائمہ کی پی ایچ ڈی تک کی تعلیم پر ایک کثیر سرمایہ صرف کیا تھا دوسری طرف فارس اسے اسی سنسان مگر پرسکون دنیا میں رہنے پر بضد تھا

اگر اس سب کا اختتام یہی ہونا تھا فارس تو پھر تم میرے ساتھ اس راستے پر چلے ہی کیوں تھے؟فائمہ کی دھیمی آواز نے خاموشی توڑی تھی ورنہ اس سے پہلے وہاں صرف پتوں کی سرسراہٹ تھی اور جلتی لکڑیوں کی آواز! فائمہ اس کے عقب میں بیٹھی اداس نظروں سے اس ندی کو دیکھ رہی تھی جس کے بے زبان کنارے دونوں کی محبت کی گواہی دے رہے تھے بے یہ ندی کے خاموش سنسا‍ن کنارے اس ایک ایک لمحے کے عینی شاہد تھے جو فائمہ نے یہاں گزارے تھے بے زبان کنارے ہی نہیں دونوں کے جسموں تک کو زبان ملی ہوئی تھی اگر چپ تھی تو صرف فائمہ کی زبان کیونکہ وہ جانتی تھی کہ یہ آخری ملاقات ہے اور وہ دونوں الگ الگ راستوں کے مسافر ہیں دونوں کے زندگی جینے کے انداز بلکل مختلف ہیں اب آخری بار بھی وہ دونوں ایک دوسرے کو قائل کرنے میں ناکام رہے تھے

فارس نے اپنی بانہوں کا حصار فائمہ کے بدن کے گرد بناتے ہوئے خود کو اس کے قریب کر لیا___میں تمہیں کبھی اس راستے پر نہیں لایا تھا فائمہ تم اس راستے پر خود آئی تھی تمہارے سامنے ہمیشہ دو راستے تھے مگر تم کبھی کسی ایک کا انتخاب نہیں کر پائی اب بھی تمہارا جسم میری محبت کی گواہی دے رہا ہے اور تمہارا دماغ اس دنیا کی محبت میں ڈوبا ہوا ہے

 

یہ ایک لاحاصل بحث ہو چکی ہے فارس اور میں نہیں چاہتی کہ میں تمہارے ساتھ یہ آخری لمحات اس بحث کے چکر میں ضائع کر دوں___فائمہ اپنی بہن کے سامنے اپنی ہار تسلیم کر چکی تھی

 

میں جانتا ہوں فائمہ کہ تمہیں کن خدشات نے گھیر رکھا ہے___فارس اس کے بالوں کو اس کے کان سے ہٹاتے ہوئے ہونٹ اس کے کانوں تک لے گیا تھا

فکر نہ کرو فائمہ میرا احساس ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گا جب تمہاری روح بے ہنگم ہجوم کی تنہائی میں کانپنے لگے اور بلیک ہول میں تمہاری سانسیں اکھڑنے لگیں تو تم مجھے یاد کر سکتی ہو میں تمہیں ولیم ورڈزورتھ اور جان کیسٹ کی وہ رومانوی نظمیں سناؤں گا جنہیں سن کر تمہیں اپنے وجود پر میرا لمس محسوس ہونے لگے گا اور پھر تم سکون پاؤ گی____وہ سرگوشی کرتے ہوئے اپنی انگلیاں فائمہ کی گردن پر حرکت دئے رہا تھا فارس اس کے بالوں میں بندھی گانٹھ کو نزاکت سے کھول کر اپنا چہرہ ان میں چھپاتے ہوئے گردن تک لے گیا تھا اس کے ہاتھ کی پشت اس کی گردن پر حرکت کرتے ہوئے اپنی تپش اس کے بدن میں منتقل کر رہی تھی اس کا چہرہ ہر لمحہ زرد اور ہونٹ خشک ہو رہے تھے فائمہ کی تیز ہوتی سانسوں کا ساز پتوں کی سرسراہٹ میں مل کر ایک نئی دھن ترتیب دے رہا تھا جس کو سننے کے لئے اس جنگل میں فارس کے سوا کوئی نہیں تھا

فارس نے فائمہ کے دونوں کندھوں کو سہارا دیا اور پھر اپنے ہونٹ اس کی گردن کی پشت پر پوسط کر دیے وہ لمبے سانس لیتے ہوئے اپنی گردن ہوا میں بلند کر چکی تھی اس کے ہونٹوں کی تپش اپنی گردن پر محسوس کرتے ہوئے وہ اس کی بانہوں میں پھسلتی چلی گئی

 

ہمیں رسمی طور پر ایک دوسرے کو الوداع نہیں کہنا چاہیے تم بھی جہاں سے چاہو مجھے چوم سکتی ہو

 

وہ اپنے ہونٹوں کی حرکت اس کے کان کی لو پر روک چکا تھا جب فائمہ نے اسے دھکیل کر خود کو اس پر سوار کر لیا اور پھر اپنا چہرہ اس کے چہرہ پر جھکاتے ہوئے اس کی آنکھوں کو چومتی ہوئی اس سے الگ ہوئی تھی یہ آخری ملاقات تھی اب کی بار فارس کے ہونٹوں پر ہونٹ رکھنے کی ہمت فائمہ میں نہیں رہی تھی

 

اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں

جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں

 

**

 

رستم شاہ کی وحشت اور رعب سے کانپتی فائمہ اسے اپنی طرف بڑھتا دیکھ کر ہر لمحہ مرتی جا رہی تھی اسے لگ رہا تھا کہ جیسے ابھی اس کا دل پھٹ کر باہر آ جائے گا وہ پانی میں کھڑی اپنے بدن کو سمیٹنے کی ناکام کوشش کر رہی تھی جب وہ اس کے قریب گیا تو فائمہ کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو نکل آئے تھے اسے بلکل اندازہ نہیں تھا کہ یہ ساری پلاننگ اتنی بری طرح فلاپ ہو جائے گی اس کے کانپنتے چہرے پر سے بال ہٹاتے ہوئے اس نے اس کی ٹھوڑی کو بلند کیا تو رستم کے چہرے پر ایک شیطانی مسکراہٹ پیدا ہوئی تھی

 

بس اتنی جلدی ہوا نکل گئی؟ باتیں تو بہت کر رہی تھی بڑا روم بڑا بستر

مجھے جانے دو پلیز میں ایسی لڑکی__

شش خاموش___اس نے خوف سے نیلے ہوئے اس کے ہونٹوں پر اپنی انگلی رکھ کر اسے خاموش کروایا تھا اور پھر ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے اس کے مزید قریب ہو گیا

میں تمہیں پہلے بھی کہہ چکا ہوں لڑکی میں جو کام ایک بار شروع کر لوں اس کو پھر کسی صورت ادھورا نہیں چھوڑتا___

وہ کان کے قریب سرگوشی کرتے ہوئے اس کے وجود کی کپکپاہٹ کو محسوس کر سکتا تھا

 

اتنا تو مجھے اندازہ تھا ہی کہ تمہارا جوش تمہیں آج رولانے والا ہے مگر تم کچھ کئے بغیر رو دو گی اس کا اندازہ مجھے بلکل نہیں تھا

 

 اس نے فائمہ کے گرد بانہوں کا حصار بنایا میرے خیال سے مزید وقت ضائع کرنا فضول ہے اس نے فائمہ کو ایک ہی جھٹکے سے پانی میں ڈبو دیا تھا وہ ایک دم سے چلائی مگر رستم اس کی چیخوں سے بے نیاز اسے پانی میں ڈبکیاں دیتا رہا وہ چند ہی لمحوں می‍ں بے حال ہو گئی تھی رستم نے اس کے بدن سے شرٹ کو ہٹاتے ہوئے اسے پانی سے اٹھا کر اپنے بستر پر پھینکا

 

میری بات سنو میں تمہیں سب سچ بتاتی ہوں___وہ مرتی کیا نہ کرتی اس نے رستم کو سب سچ بتانے کا فیصلہ کر لیا تھا مگر وہ بھلا کہاں سننے والا تھا

 

ہاہاہاہاہا مجھے تمہاری کہانی سننے میں بہت مزہ آئے گا مگر ابھی نہیں اس سب کے بعد!!! اس لئے اب تمہارے منہ سے سوائے سسکیوں کے کچھ نہیں نکلنا چاہیے یقین کرو مجھے زور زبردستی میں بلکل مزہ نہیں آتا

وہ وحشت ناک غصیلی آنکھوں سے اسے ڈرا رہا تھا رستم نے اس کی دونوں کلائیوں کو بستر پر دبوچ کر اس کی مزاحمتیں کچل دی

 

 ڈر خوف اور پانی کی ڈبکیوں سے بے حال ہو چکی فائمہ اب کی بار ہار مان گئی تھی وہ زور سے آنکھیں بند کیے ہوئے بے سود لیٹ گئی اس کا جسم اب کوئی حرکت نہیں کر رہا تھا

Epi 4

 

وہ جیسے ہی اس کے بدن سے ہٹی تھی اسی وقت فارس نے اسے جکڑ لیا تھا اس کی آنکھوں کی نمی بوندوں کی صورت اس کی گالوں سے بہنے لگی تھی فائمہ نے اپنے چہرے پر جھکے فارس کی گرم سانسوں کو محسوس کرتے ہوئے جب اس کی آنکھوں کی شدت  کو دیکھا تو اس کے بدن میں ایک بجلی سی دور گئی تھی جس سے اس کا بدن کپکانے لگا اس کپکاتے بدن کی کپکاہٹ نے فارس کو جوش دیا تھا جو اس کے بدن پر گرتے ہوئے اس کی گردن پر ٹوٹ پڑا تھا وہ اسے روکنے کے لئے سر توڑ مزاحمت کرنے لگی مگر اس کی کوئی حرکت بھی فارش کو باز نہیں رکھ پائی رہی تھی اس کی شدت بڑھتی جا رہی تھی جس کے نشانات اس کے بدن پر چسپاں ہو رہے تھے فارس نے اس کی شرٹ کو گردن سے چاک کرتے ہوئے اس کے کندھوں کو برہنہ کیا تھا اور پھر اپنی زبان کا لمس اس کی گردن سے شروع کرتے ہوئے کندھے تک لے گیا ہر گزرتے لمحے فائمہ کی پکڑ اس کے بدن پر مضبوط ہوتی جا رہی تھی وہ نیچے اسکی بیوٹی بون تک گیا جس سے اس کے بدن سرد ہونے لگا تھا وہ اپنے کانپتے ہاتھوں سے اسے ہٹا رہی تھی مگر وہ اس کے بدن کی تراشوں کو ماپتے ہوئے اپنے ہونٹوں کے لمس سے اس کے بدن کو سیراب کرتا ہوا پیٹ تک آیا تھا فائمہ نے اسے ایک طرف دھکیلا اور نم آنکھوں کیساتھ وہاں سے جانے لگی کہ پشت پر گردن سے تھوڑا نیچے محسوس ہوتے ہونٹوں کی گرمی نے اس کے ٹھنڈے وجود کو ایک دم ساکن کر دیا تھا وہ اسی جگہ بت سی بن کر رہ گئی تھی اس کے بدن پر حرکت کرتی انگلیوں نے گویا اس کی جان نکال دی تھی

فارس کے ہونٹ اس کے کندھوں کی پشت سے کمر تک آئے اور بل کھاتی کمر کے گرد چکر لگاتے ہوئے سامنے آئے اس کے نرم جسم پر ہونٹوں کی تپش فائمہ کی جان نکال رہی تھی فارس نے اس کی شرٹ کو ہٹاتے ہوئے جیسے ہی اس کے پیٹ کو ہونٹوں میں بھر کر ایک جھٹکے سے اندر کو کھینچا تو گویا اس نے فائمہ کی ٹانگوں سے روح کھینچ لی ہو وہ کانپتی ٹانگوں کیساتھ  وہی زمین بوس ہو گئی اور وہ اس کے نرم پیٹ پر اپنے لمس کے نشانات چھوڑتا ہوا اس کی ناف تک پہنچا اور پھر ناف کے گرد زبان پھیرنے لگا فائمہ کا بدن اس تشدد سے پوری طرح کانپنے لگا تھا بے چین کر دینے والی تپش سے اس کا بدن جل اٹھا تھا فارس کے دونوں ہاتھ اس کے بدن کو برہنہ کرتے ہوئے سینے تک پہنچ گئے تھے فارس نے سینے کے نرم ابھاروں کو ہاتھوں میں ہولڈ کئے اپنی زبان جیسے ہی اس کی ناف میں ڈالی تو فائمہ کے کانپنتے بدن کی تمام جنبشیں ختم ہو گئی اسے صرف ایک جھٹکا لگا تھا اس کے بعد وہ بے چینی کی حالت سے سکون کی دنیا میں بہکتی چلی گئی فارس کی زبان کا ہلکا ہلکا لمس جو ناف کی گہرائی کو مسلسل ناپتے ہوئے حرکت کر رہا تھا فائمہ کے بدن کو راحت و سکون بخش رہا تھا اس کے نرم ابھار سخت ہو کر اکڑ چکے تھے

فارس اس کے شکستہ بدن کو تمام الجھنوں سے آزاد کرتا ہوا اپنی بانہوں کے حصار میں دبوچ چکا تھا اس کے ابھار فارس کے سینے میں دھنسنا چاہتا تھا مگر وہ اس سے بے خبر صرف فائمہ کے ہونٹوں کو چوستا جا رہا تھا

Post a Comment

Previous Post Next Post