Andha kya chahay do ankhain by H.M. Hakro short novel online reading

 اندھا کیا چاہے دو آنکھیں ازقلم ایچ. ایم ہکڑو

اسلام علیکم!
اُمید ہے آپ خیریت سے ہوں گے۔ ایک مرتبہ پھر حاضر ہوئی ہوں ایک اور مختصر کہانی کے ساتھ۔ اُمید ہے آپ اسے اپنی ویبسائٹ پر پوسٹ کریں گے۔ شکریہ!
H.M HAKRO
Discription:
ایک لمحے میں زندگی کیا سے کیا ہو جائے کسے معلوم؟ کیا معلوم وہ خواہشیں، جو ہمارے جینے کی وجہ ہیں، وہی خواہشیں دم توڑ جائیں۔ کچھ ایسا ہی ہوا تھا اُس کے ساتھ بھی۔ اُس نے فقط ایک خواہش کو اپنی تمام تر خواہشات پر ترجیع دی اور آج تلک وہ اُس پر قائم ہے۔ آخر ایسا کیا واقعہ ہوا تھا اُس کے ساتھ کہ اُس کی دیوانگی کی حدود کو چھوتی خواہش ہمیشہ کے لیے دم توڑ گئی؟



اندھا کیا چاہے دو آنکھیں


از قلم: ایچ. ایم ہکڑو


"ایک لمحہ، ایک واقعہ، ایک حادثہ، ہاں! صرف ایک پل لگتا ہے زندگی بدلنے میں، اپنی ترجیحات بدلنے میں اور خود کو بلکل ہی ایک مختلف شخصیت بنانے میں۔ کچھ ایسا ہی اُس کے ساتھ بھی ہوا تھا۔ وہ جو کسی زمانے میں بارش کی خطرناک حد تک دیوانی ہوا کرتی آج وہی لڑکی بادل چھا جانے پر خود کو کاموں میں مصروف کر دیتی ہے۔ ایسی کیا خواہش تھی اُس کی جس کی وجہ سے تمام خواہشات کا گلا گھونٹ دیا تھا اُس نے۔ چار افراد پر مشتمل اُس چھوٹی سی فیملی کے ساتھ ہوا واقعہ، اُس معصوم سی جان پر اس قدر اثر انداز ہوا کہ اُس کی پوری شخصیت کو ہی بدل گیا۔" 

"پکڑ کر دکھاؤ۔ ہاہاہا! نہیں پکڑ سکتے نا!" وہ سات سالہ بچی رُک کر اُسے زبان چڑاتے ہوئے بولی اور ہنس دی۔ 

"تم بہت تیز بھاگتی ہو آنیہ! میں تمہیں نہیں پکڑ سکتا۔" وہ گھٹنوں پر ہاتھ رکھے جھک کر مصنوئی ہانپتے ہوئے بولا۔

"بارش ہے ہی اتنی پیاری کہ مجھے اینرجی ڈوز مل جاتی ہے۔" وہ دونوں بازو ہوا میں پھیلائے، خوشی سے جھومتے ہوئے بولی۔

"آنیہ! اسد! بس بہت کھیل لیے۔ اب آجاؤ۔ کل اسکول بھی جانا ہے۔" نتاشا نے برآمدے سے ہی اُنہیں آواز دی۔ اُسے بارش کم و بیش ہی پسند تھی جبکہ اُن کے بچوں کو اپنے والد کی طرح بارش بہت ہی خطرناک حد تک پسند تھی۔

"نہیں مما! ابھی تک بھئیا نے مجھے پکڑا ہی نہیں۔ میں کیسے آجاؤں۔" آنيہ نے منہ بنا کے کہا۔ بارش کی دیوانی کو کیسے اچھا لگتا اگر اُسے کوئی بارش میں کھیلنے سے منع کر دیتا۔

"آنیہ! میں ضرور تمہیں پکڑوں گا پر کسی اور دِن۔ ابھی تو مجھے ایسا لگ رہا ہے جیسے مجھے سردی ہو رہی ہے۔" اسد نے کہا۔ آنیہ نے اُس کی جانب دیکھا۔

"آپ کو سردی نہیں ہو رہی۔ اگر سردی ہو رہی ہوتی تو آپ کے دانت ایسے بج رہے ہوتے۔" آنیہ نے کہتے ساتھ اپنے دانت بجانے کی ایکٹنگ کی جیسے سردیوں میں اکثر اُس کے بجتے تھے اور کھلکھلا کے ہنس دی۔

"آنیہ! بابا آنے والے ہیں۔ اگر آپ ایسے بارش میں گيلی ہو گی تو بابا کو ہگ کیسے کرو گی اور اُن کے ساتھ کیسے بیٹھو گی۔ آؤ بابا سے پہلے تیار ہو کر بیٹھتے ہیں۔" نتاشا نے اُس کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھا تو وہ فوراً سے برآمدے میں آئی۔

"مما! جلدی کریں۔ بابا آجائیں گے۔" وہ نتاشا کا ہاتھ پکڑے اُسے کھینچتے ہوئے اندر لے جانے لگی۔ 

"اسد! تم بھی جاؤ فریش ہو جاؤ۔" وہ اسد سے کہتے ہوئے آنیہ کے ساتھ اندر چلی گئی۔ پیچھے اسد بھی اپنے کمرے میں چلا گیا۔

*..........*

"بابا! مما نے مجھے آج بارش میں کھیلنے نہیں دیا۔" آنیہ احمر کی گود میں بیٹھی نتاشا کی شکایت لگا رہی تھی۔ نتاشا چپ چاپ بیٹھی باپ بیٹی کی محبت دیکھ رہی تھی جبکہ اسد گود میں ٹشو کا ڈبہ لیے بیٹھا تھا اور بار بار اپنی بہتی ناک اور چھینک روک رہا تھا۔ اُسے ہمیشہ بارش میں کھیلنے سے یہی کچھ ہوتا تھا پھر بھی آنیہ کی خاطر بارش سے بھاگتا نہ تھا اور اُس کے ساتھ کھیلتا تھا۔

"اچھا! پھر اسد کو سردی کیسے لگی؟" احمر نے پیار سے پوچھا۔ آنیہ نے اسد کی جانب دیکھا جو چھینک کر اب ناک صاف کر رہا تھا۔ اُس کے دیکھنے پر مسکرا دیا۔

"بابا! بھئیا اور میں تھوڑی دیر ہی کھیل پائے تھے۔ مما نے زیادہ کھیلنے نہیں دیا۔" اُس نے منہ بنایا۔ نتاشا نے ٹی وی پر چلتی نیوز کی آواز بڑھائی۔

"محکمہ موسمیات کے اطلاعات کے مطابق ملک بھر میں اگلے ہفتے بھی بارشیں جاری رہنے کا امکان۔ آپ کو اہم خبر سے آگاہ کرتے چلیں کہ سندھ حکومت نے اگلے پانچ دِن تمام نجی و سرکاری تعلیمی ادارے بند رکھنے کہ اعلان کیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔"

"یاہو! کل چھٹی ہے۔" آنیہ کو اور کچھ تو سمجھ نہیں آیا لیکن اپنے مطلب کی بات اُسے ہمیشہ فوراً سے پہلے سمجھ آجاتی تھی۔

"آپ کو تو اسکول سے چھوٹی بورنگ نہیں لگتی تھی؟ اب اتنی خوش۔" نتاشا نے سوالیہ نظروں سے اُسے دیکھا۔

"ہاں نا مما! چھٹیاں بورنگ ہوتی ہیں لیکن بابا نے کہا تھا جب اسکول سے چھٹیاں ہوں گی تو ہم گھومنے جائیں گے۔ گھومنے جائیں گے نا بابا؟" اُس نے نتاشا کو جواب دے احمر سے پوچھا۔

"اوکے! میں کل سے چھٹی لیتا ہوں پھر کل شام کو چلتے ہیں۔" احمر نے مسکرا کر کہا۔ ایسا کیسے ہو سکتا تھا کہ آنیہ کوئی خواہش کرے اور وہ پوری نہ کریں۔

"یاہو! بابا یور دی بیسٹ۔" وہ چہکتے ہوئے اُن کے گلے لگ گئی۔

"مائی آنیہ از دی بیسٹ!" اُنہوں نے اُس کے سر پر بوسہ دیتے ہوئے کہا۔

*..........*

یوں ہی کٹ جائے گا سفر ساتھ چلنے سے

کہ منزل آئے گی نظر ساتھ چلنے سے

وہ دونوں گاڑی کی پچھلی سیٹ پر بیٹھے لہک لہک کر گا رہے تھے۔ آج اُن کے خوبصورت سفر کا تیسرا دن تھا اور اس دوران آنیہ نے بارش کا جتنا مزا لیا تھا وہ سب سے زیادہ حسین اور یادگار تھا کیونکہ اس بار نتاشا نے بھی اُن تینوں کا بارش میں ساتھ دیا تھا تو اسی وجہ سے آنیہ کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔ وہ جس سڑک پر رواں تھے اُس کی ایک جانب پہاڑ اور دوسری جانب وادی کا پانی رواں تھا جو معمول کے برعکس زیادہ تیزی سے اپنی منزل کی جانب رواں تھا کیونکہ لگاتار بارشوں کی وجہ سے ایک تو پانی کی مقدار میں زیادتی تھی اور پھر دوسرا اونچائی سے آنے کی وجہ سے اُس کی رفتار بھی بڑھ گئی تھی۔

"بابا! میں نے آگے بیٹھنا ہے آپ کے ساتھ۔" آنیہ نے فرمائش کی جو اُسی وقت احمر نے پوری کر دی اور اُسے اپنی گود میں بٹھا کر گاڑی ڈرائیو کرنے لگے۔ آنیہ خوشی سے اسٹیئرنگ پر ہاتھ جمائے اُن کے ساتھ گاڑی چلانے لگی۔

"بابا! بھوک لگی ہے۔" کب سے چہکتی ہوئی آنیہ کو خاموشی سے مسکرا کر دیکھتے اسد نے کہا۔

"جاؤ! بیٹا آپ کو تو ہمیشہ ہی بھوک لگتی ہے۔" اور یہ سب کہنے والا احمر نہیں بلکہ آنیہ تھی جو اب کھلکھلا کر ہنس رہی تھی۔

"احمر! کہیں پر روکیں۔ لنچ کے بعد آگے چلتے ہیں۔" نتاشا نے کہا تو احمر نے اثبات میں سر ہلایا۔ تھوڑی دیر بعد وہ چاروں ایک ڈھابے نما جگہ پر بیٹھے تھے جہاں اُن کے قدموں سے پہاڑوں کا پانی گزر رہا تھا۔

"بابا!" آنیہ نے بیٹھے بیٹھے احمر کو پُکارا۔

"جی بابا کی جان!" وہ اُسی پل اُس کی جانب متوجہ ہوئے۔

"آج بارش نہیں ہوئی۔" اُس نے منہ بنایا۔

"آنیہ! تمہیں تو بارش کا چسکا ہی لگ گیا ہے۔" اسد نے کھانے سے انصاف کرتے ہوئے کہا۔

"آپ بھی تو کل سے بس کھائے ہی جا رہے ہیں۔ میں نے کچھ کہا۔ جو اب مجھے کہہ رہے ہیں؟" آنیہ نے منہ بنایا۔

"اسد! تنگ نہیں کیا کرو۔ پتا بھی ہے روتی ہے تو چپ کرانا کتنا مشکل ہے۔" نتاشا نے ٹوکا تو اُس نے کندھے اچکا دیے۔

"آج بارش نہیں ہو گی شاید! آسمان بلکل صاف ہے۔ کل واپس جا رہے ہیں ہم کیونکہ پھر تیز بارشوں کی پیشن گوئی ہے کوئی مسئلہ نہ ہو جائے۔" احمر نے کہا تو سب نے اثبات میں سر ہلایا جبکہ آنیہ کا جوش جھاگ کی طرح بیٹھ گیا تھا بارش نہ ہونے کا سن کر۔

*..........*

"بابا! مجھے ڈر لگ رہا ہے۔" آنیہ نے خوفزدہ لہجے میں کہا۔ سڑک پر پھسلن تھی اور وادی کا پانی خطرناک حد تک بڑھ چکا تھا کیونکہ تھوڑی دیر پہلے ہی اچانک موسلادھار بارش ہوئی تھی جس کی وجہ سے ہر جگہ پانی پانی ہی تھا۔ آنیہ چونکہ احمر کی گود میں بیٹھی تھی اور ان کی طرف وادی تھی جس کی وجہ سے آنیہ کو بے تحاشہ گھبراہٹ ہو رہی تھی۔

"اِدھر پیچھے آجاؤ آنیہ!" اسد نے اسکی جانب ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا تو اُس نے اسد کا ہاتھ پکڑ لیا۔ احمر نے گاڑی کی سپیڈ کم کر دی اور آنیہ کو سہارا دے کر پیچھے اسد کے ساتھ بٹھایا۔

"احمر آگے دیکھیں!" نتاشا نے کہا لیکن جب تک وہ آگے دیکھتے سامنے آتی گاڑی بہت قریب پہنچ چکی تھی۔ ایک لمحے کا کھیل تھا اور گاڑی وادی میں جا گری۔ 

"بابا! مما! بھئیا!" آنیہ روتے ہوئے اُن تینوں کو پُکار رہی تھی۔ اسد نے مضبوطی سے اُس کے گرد بازو باندھ رکھے تھے جبکہ آنیہ نے بھی اُس کی گردن کے گرد مضبوطی سے اپنے بازوں باندھے تھے۔ گاڑی ایک پتھر کی وجہ سے ایک ہی جگہ پھنس گئی تھی لیکن گاڑی الٹی ہو چکّی تھی اور پانی کے تیز بہاؤ کی وجہ سے گاڑی کا شیشہ ٹوٹنے ہی والا تھا اور گاڑی میں پانی آہستہ آہستہ داخل ہو رہا تھا۔ احمر دروازہ کھولنے کی سعی کر رہے تھے جبکہ اسد اور نتاشا آنيہ کو پرسکون کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ گھبراہٹ تو اُنہیں بھی ہو رہی تھی لیکن وہ دل ہی دل میں اپنے رب کے حضور اپنی حفاظت کی دعا کر رہے تھے۔

"اللّٰه تعالیٰ پلیز ہم سب کو بچا لیں۔ میں کبھی بارش میں نہیں کھیلوں گی۔ آپ کو اپنے محبوب کا واسطہ ہمیں بچا لیں۔" آنيہ نے روتے ہوئے بلند آواز میں خدا سے دعا کی جو اُس نے احمر سے سیکھی تھی کہ اللّٰه کو محبوب چیز کا واسطہ دے کر جب بھی کچھ مانگا جاتا ہے تو وہ دعا رد نہیں کرتے۔

*..........*

"یہاں سے کھینچو!"

"دو لوگ نیچے جاؤ۔"

"کوشش کرتے رہو!" لوگوں کے ہجوم میں سب کی آوازوں نے مل کر ایک کہرام برپا کیا ہوا تھا۔ سب گاڑی کو باہر نکالنے کی کوشش کر رہے تھے۔ آخر کار دو گھنٹوں کی ان تھک محنت اور مشقت کے بعد آخر کار وہاں کے مقامی لوگ گاڑی کو پانی سے باہر لانے میں کامیاب ہو چکے تھے۔

"دروازے نہیں کھل رہے آگے کی جانب سے مدد کرو اُن کی۔" ایک شخص نے دروازہ کھولنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔

بہت سے لوگوں نے ونڈ سکرین کے پار سے احمر اور نتاشا کو باہر نکالا جو نیم بےہوش تھے۔

"آنیہ! اسد!" وہ شل ہوتی ٹانگوں کے ساتھ گاڑی کی جانب بڑھنے لگی جب وہاں ہی کُچھ لوگوں نے اُسے روک دیا۔

"اندر چھوٹی بچی اور چودا پندرہ سالہ لڑکا ہے لیکن وہ ایک دوسرے کو چھوڑ ہی نہیں رہے۔"

"دروازہ کھولنے کی کوشش کرو۔"

"دروازے کے شیشے سے نکلنے کی کوشش کرو۔"

"دونوں کو الگ کرو۔" سب لوگ الگ الگ طرح سے کوشش کر رہے تھے لیکن وہ دو تھے کہ نیم بےہوش ہونے کے باوجود ایک دوسرے سے الگ نہیں ہو رہے تھے۔ کچھ دیر اور کوشش کرنے کے بعد انہیں باحفاظت باہر نکال لیا گیا۔ آنیہ مکمل طور پر ہوش و خرد سے بیگانہ ہو چکی تھی جبکہ اسد اُسے کسی طور چھوڑنے پر راضی نہ تھا۔ وہیں کے لوگوں نے اُنہیں فوری طبی امداد مہیا کی تاکہ انہیں جلد از جلد ہوش میں لایا جا سکے۔ 

*..........*

"آنیہ! آنکھیں کھولو۔ مما! بابا! آنیہ ہوش میں آ رہی ہے۔" آنیہ کو آنکھیں کھولتے دیکھ اسد نے احمر اور نتاشا کو مخاطب کیا۔ وہ دونوں جلدی سے آنیہ کے قریب آئے۔ پچھلے ایک گھنٹے سے آنیہ بےہوش تھی اب جاکر کہیں اُسے تھوڑا تھوڑا ہوش آیا تھا۔ وہاں کے ایک بزرگ نے اُنہیں اپنے گھر رُکنے کے لیے کہا تھا جب تک وہ ٹھیک نہیں ہو جاتے۔

"بھئیا!" آنیہ نے آہستہ سے اسد کو پُکارا۔

"جی آنیہ! میں یہیں ہوں!" وہ اُس کی جانب جھکا۔

"آپ نے مجھے پکڑ لیا۔" وہ مدھم سا مسکرائی۔ اُس کے مسکرانے پر وہ تینوں بھی آسودگی سے مسکرا دیے۔

"اب پھر سے تم بھاگو گی اور میں تمہیں پکڑوں گا۔ اس لیے جلدی سے ٹھیک ہو جاؤ۔" اسد نے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا۔ نتاشا اور احمر دونوں مسکرا کر اُنہیں دیکھ رہے تھے۔

"نہیں! بس آپ نے پکڑ لیا۔ اب میں کبھی بھی بارش میں نہیں کھیلوں گی۔" اُس نے جلدی سے کہا۔

"ایک وہ دِن تھا اور ایک آج کا دِن ہے کہ آنیہ پھر کبھی بارش میں نہیں کھیلی۔ اندھا کیا چاہے دو آنکھیں کے مصداق اُس نے مشکل کے وقت ہم سب کے لیے زندگی مانگی اور اپنی دیوانگی کو خیرآباد کہہ دیا۔ اُس کے قریب کھانا، کھیلنا، بارش، حتاکہ سب کچھ بےمعنی ہو گیا۔ موت کو اتنے قریب سے دیکھنے کے بعد اُس کی سب سے بڑی خواہش ہی ہم سب کی زندگی تھی۔" وہ صحن میں چارپائی پر خاموش بیٹھا آسمان کو تک رہا تھا جہاں کالے بادل رفتہ رفتہ آسمان کو اپنے گھیرے میں لے رہے تھے۔

"بھئیا!" 

"جی آنیہ!" اُس نے برآمدے کی جانب دیکھا جہاں وہ بیزار سی کھڑی اُسے ہی دیکھ رہی تھی۔

"کب سے آپ کا انتظار کر رہی ہوں۔ آئیں نا!" اُس نے منہ بنا کر کہا۔

"آج ایک سوشل ایکٹی وسٹ کو ٹائم مل گیا میرے ساتھ کیرم کھیلنے کا؟" اُس نے اُسے چھیڑا۔

"بھئیا! میں بابا کو شکایت لگاؤں گی۔" وہ اُسے دھمکی دیتے اندر کی جانب چلی گئی جبکہ اسد ہنستے ہوئے اُس کے پیچھے گیا۔

*..........*

اندھے کی سب سے بڑی خواہش کیا ہوتی ہے کہ اُس کی بھی دو آنکھیں ہوتی۔ اسی طرح کسی کی من مانی مراد پوری ہو جانے پر کہتے ہیں کہ اندھا کیا چاہے دو آنکھیں۔ موت کو اپنی آنکھوں کے اتنے قریب دیکھنے کے بعد آنیہ کی سب سے بڑی خواہش اُن کا زندہ بچ جانا تھا جو پوری ہو گئی جس کی وجہ سے اُس کی دوسری تمام خواہشیں دم توڑ گئیں کہ زندگی کے سوا سب سے بڑی خواہش ہی کیا ہوگی۔


ختم شد


Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.