APSACSIAN by H.M Hakro short story

 

 

Bottom of Form

Top of Form

Bottom of Form

The "H" Family

APSACSIAN 

ازقلم : ایچ.ایم ہکڑو

APSACSIAN by H.M Hakro short story


 

 

وہ پرسکون نیند کے مزے لے رہا تھا جب اچانک اس کی بند پلکوں میں جنبش ہوئی،ماتھے پر پانی کی بوندیں نمودار ہونے لگیں اور اُس نے اپنے اوپر پہنے کمبل کو زور سے اپنی مٹھیوں میں بھینچ لیا۔ اُس کی آنکھوں پر بچھی گھنی پلکیں اضطرابی حالت میں جنبش کر رہی تھیں۔ اس کے لبوں نے ہلکی سی پھڑپھڑاہٹ کی لیکن کچھ واضع سنائی نہ دیا۔ اُس نے اپنا سر دائیں بائیں ہلایا جیسے بہت بیچین  ہو۔ اُس کی بڑبڑاہٹ کچھ واضع ہوئی۔

 

"نہیں! چھوڑو مُجھے۔ چھوڑو! چھوڑ دو۔ پلیز میرے ساتھ ایسا مت کرو۔" آہستہ آہستہ اُس کی آواز اونچی ہونے لگی جس کی وجہ سے اُس کے ساتھ سویا اُس کا بڑا بھائی اُٹھ بیٹھا اور پریشانی سے اُس کی جانب دیکھا جو اب بھی بڑبڑا رہا تھا اور ساتھ اپنے ہاتھ پاؤں بھی مار رہا تھا۔

 

"حنان! اُٹھو کیا ہوا؟ اُٹھو" وہ حنان کا گال تھپتھاتے ہوئے اسے جگانے کی کوشش کر رہا تھا۔

 

"نہیں! نہیں چھوڑو مجھے۔۔۔۔۔۔" اس سے پہلے کہ حنان کی بات پوری ہوتی اُس کے بھائی نے اسے جھنجھوڑ کے جگا دیا۔

 

"بھائی۔۔۔ بھائی جان!" حنان جیسے ہی ہوش میں آیا اپنے بھائی کو دیکھ کر اُس سے لپٹ گیا اور سسکنے لگا۔

 

"حنان! میری جان کیا ہوا ہے؟ کیا کوئی بُرا خواب دیکھا؟" بھائی جان نے اُس کا سر سہلاتے پیار سے پوچھا۔ اُس نے محض سر ہلا دیا۔

 

"کوئی بات نہیں صرف خواب ہی تھا۔ حقیقت تھوڑی ہے جو اتنا ڈر رہے ہو۔ بھائی جان ہے نا تمہارے ساتھ ۔" انہوں نے اسی پیار بھرے لہجے میں کہا۔ دفعتاً دروازے پر دستک ہوئی۔

 

"يس! کم ان۔" بھائی جان نے اجازت دی۔

 

"بھائی جان! کیا ہو گیا ہے آج آپ کو؟ اگر میں۔۔۔۔۔۔" وہ نون سٹاپ بولتے ہوئے اندر آئی لیکن اندر کا منظر دیکھتے باقی کے الفاظ اُس کہ منہ میں رہ گئے۔ اُس نے اپنی آنکھوں کی پتلیاں سکوڑ کر سامنے کا منظر دیکھا جہاں اُس کا چھوٹا بھائی حنان، بھائی جان یعنی حمزہ سے لپٹ کر سسک رہا تھا۔

 

"کوئٹہ کے نان کو کیا ہوا بھائی جان؟" اُس نے تعجب سے پوچھا۔

 

"حنین! کتنی بار کہا ہے حنان نام ہے۔ ہر بار نام کو کیوں  خراب کرتی ہو؟" حمزہ نے اسے گھورتے ہوئے پوچھا۔

 

"سوری! ویسے کیا ہوا ہے اسے؟" حنین اپنے کھلے بالوں میں کنگھی کرتے ہوئے بولی۔

 

"ڈر گیا ہے۔ کوئی بُرا خواب دیکھا ہے۔" حمزہ نے حنان کے سر پر بوسہ دیتے کہا۔

 

"اچھا! چھوڑیں اسے اور میرے بال بنائیں جلدی سے۔ اسے بھی کہیں کہ جلدی تیار ہو جائے۔" حنین نے حمزہ کی جانب بڑھتے ہوئے لاپروائی سے کہا۔

 

"حنین! وہ ڈرا ہوا ہے اور تم ہو کہ۔۔۔۔۔" حمزہ نے افسوس سے کہتے بات ادھوری چھوڑ دی۔

 

"کیا بھائی جان؟ ابھی میں آپ کو بتاؤں کہ اس نے کیا خواب دیکھا ہے؟" حنین نے چڑ کر کہا اور دھپ سے بیڈ پر بیٹھی۔

 

"تمہیں کیسے پتا کہ اس نے کیا خواب دیکھا ہے؟" حمزہ نے پوچھا۔

 

"کیا بھائی جان؟ آپ بھی کمال کرتے ہیں۔ اس کی جڑوا بہن ہوں۔ بچپن سے لے کر آج تک اس کے کرتوتوں کی سزا میں بھگت رہی ہوں۔۔۔۔۔۔۔" ابھی وہ بول ہی رہی تھی جب حمزہ نے اسے ٹوکا۔

 

"فضول بولنے سے منع کیا ہے نا۔"

 

"سوری! پہلے اسے کہیں جاکر فریش ہو کر آئے۔" حنین نے حنان کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا۔

 

"حنان! میری جان جاؤ جا کر فریش ہو جاؤ۔" حمزہ نے اسے خود سے الگ کرتے اُس کے ماتھے سے بال ہٹائے۔ حنان نے سر ہلاتے واش روم کی جانب قدم بڑھائے۔

 

"ڈرامے باز کہیں کا؟" حنین نے منہ کے زاویے بگاڑتے ہوئے کہا اور حمزہ کو دیکھا جو اسے گھور رہا تھا۔

 

"کیا بھائی جان! آپ ہمیشہ مجھے ہی کیوں ڈانٹتے ہیں؟" حنین نے منہ بسورتے ہوئے کہا۔

 

"حنین چھوٹا ہے وہ تم سے۔ کتنی بار کہا ہے پیار سے بات کیا کرو۔" حمزہ نے پیار سے کہا اور اُس کے ہاتھ سے کنگھی لیتے اسے پلٹنے کا اشارہ کیا۔

 

"اب آپ زیادتی کر رہے ہیں میرے ساتھ۔ صرف پانچ منٹ ہی بڑی ہوں میں اُس سے۔" حنین نے منہ بنایا۔

 

"جو بھی ہو۔ چھوٹا ہے نا وہ۔ فیل کرتا ہے بہت زیادہ۔ پچھلی بار ہی کہہ رہا تھا کہ تم اپنی فرینڈز کی وجہ سے اسے کوئی امپارٹنس نہیں دیتی۔" حمزہ نے اُس کی چٹیاں بنتے پیار سے سمجھایا۔

 

"ہاہ! بھائی جان آپ کو پتا ہے میری آدھی سے زیادہ فرینڈز اس کی وجہ سے ہی بریک میں مجھے انوائیٹ نہیں کرتیں۔" حنین نے حمزہ کی جانب گھومتے صدمے کی کیفیت میں کہا۔

 

"کوئی بات نہیں حنین جانی! آپ کے لیے آسانی ہو گئی۔" حمزہ نے مسکراہٹ دباتے اُس کے گال کھینچے۔

 

"آپ بلکل بھول گئے نا کہ آج کیا تاریخ ہے؟" حنین نے پوچھا۔

 

"نہیں میں کیوں بھولوں گا آج 17 جنوری ہے۔" حمزہ نے کہا۔

 

"جی! اور اسی وجہ سے آپ کی جان نے بُرا خواب دیکھا ہے۔" حنین نے جی پر کچھ زیادہ ہی زور دیتے ہوئے کہا۔ حمزہ سوچنے لگا پھر سمجھ آنے پر ہنسا تو ہنستا ہی چلا گیا۔

 

"ہاں ہاں ہنس لیں آپ۔ مجھے دیر ہو رہی ہے۔ اتنے دنوں بعد میں اپنی ساری فرینڈز سے ملوں گی اور ٹیچرز۔ ہائے!کتنا مزا آئے گا۔ پورے دو ہفتوں بعد میں اپنا اسکول دیکھوں گی۔ ہائے!" حنین اتنے جزب سے بول رہی تھی جیسے ابھی سے اسے وہ منظر دکھائی دے رہا ہو۔ اسی اثناء میں حنان واشروم سے نکلا۔

 

"چل نان۔۔۔۔ میرا مطلب حنان بھائی جان کی جان جلدی سے تیار ہو۔ اگر میں لیٹ ہوگئی نا تو میں میم شبنم کو کہوں گی کہ تیری وجہ سے لیٹ ہوئی ہوں۔"حنین نے حنان کو دیکھتے کہا۔

 

"کیا مطلب؟" اُس نے اچھنبے سے پوچھا۔

 

"میرا پیارا بھائی! کتنی معصومیت ہے نا تمہارے اندر۔ چپ چاپ تیار ہو جاؤ۔ اے.پی.ایس. تمہارا انتظار کر رہا ہے۔" حنین نے اسے پچکارتے ہوئے کہا۔

 

"یار بھائی جان آپ نے میرا ایڈمیشن اس منہوس اے.پی.ایس. میں کیوں کروایا؟" حنان نے بیچارگی سے کہا۔

 

"خبردار حنان! اگر تم نے اے.پی.ایس. کو کچھ کہا تو۔ میں تمہاری جان لے لوں گی۔ اتنا اچھا تو ہے۔ ہر چیز میں کتنی neatness and punctuality ہوتی ہے۔" حنین نے اسے ٹوک دیا۔

 

"ہاں ہاں تم تو یہی کہو گی نا کیونکہ تم لڑکی ہو۔ ہم لڑکوں سے پوچھو کہ ہم پر کیا گزرتی ہے۔ ساری سڑکٹنیس تو ہم لڑکوں پر ہوتی ہیں۔" حنان نے رونی شکل بنا کر کہا۔

 

"بس حنان! اب میں تمہارا منہ توڑ دوں گی اگر کچھ بھی میرے اے.پی.ایس. کو بولا تو۔ کب سے برداشت کر رہی ہوں میں۔" حنین کو ایک دم غصہ آگیا۔ اُس سے کہاں برداشت ہوتا تھا کہ کوئی اُس کی من پسند چیز کو کچھ کہے۔

 

"بس کر جاؤ دونوں۔ کب سے بنا بات کے لڑ رہے ہو۔جاؤ حنان جا کر تیار ہو۔ دیر ہو رہی ہے۔" حمزہ نے پہلے دونوں کو ڈانٹا پھر حنان کو پیار سے کہا۔

 

"میں نہیں جا رہا بھائی جان۔ مجھے سونا ہے۔" حنان نے منہ بناتے کہا اور بیڈ پر بیٹھ گیا۔ حنین نے حمزہ کو آنکھ ماری جس پر حمزہ نے مثبت انداز میں سر ہلایا۔

 

"اُٹھو حنان! دیر ہو رہی ہے۔ دو ہفتوں بعد بھی تم یہ سستی دیکھا رہے ہو۔ اُٹھ بھی جاؤ۔" حنین اسے بازوں سے کھینچ کر اٹھاتے ہوئے بولی۔

 

"چھوڑو مجھے۔ میں نہیں اُٹھ رہا۔" حنان نے اُس کے ہاتھ جھٹکنے چاہے جب حمزہ نے بھی دوسرے بازوں سے اسے کھینچ کر اٹھایا۔

 

"نہیں !چھوڑو مجھے۔ چھوڑو! چھوڑدو۔ پلیز میرے ساتھ ایسا مت کرو۔" حنان ہاتھ پاؤں مارتے ہوئے مزمت کر رہا تھا۔ وہ دونوں لب بھینچے اسے واشروم تک لے جا رہے تھے۔

 

"بھائی جان! آپ ہی میرے خواب کو حقیقت بنا رہے ہیں۔" حنان نے روہانسے لہجے میں کہا۔

 

"میری جان! حقیقت سے آگے بھی ایک دنیا ہے۔ ابھی خواب میں تم نے صرف اسکول اوپن ہوتے دیکھے تھے۔ ابھی جاؤ اسکول تو تمہیں وہ پیپرز کا ٹائم ٹیبل دیں گے جو اگلے ہفتے سے شروع ہونے والے ہیں۔ اس لیے جلدی تیار ہو۔" حمزہ نے اسے پچکارتے ہوئے کہا۔

 

یہ تو ان تینوں کا ہمیشہ کا کام ہے جب بھی چھٹیاں ختم ہوتی ہیں حنان اسی طرح ڈرامے بازیاں کرنے پر آجاتا ہے۔ خیر اے.پی.ایس. اسکول کوئی منہوس اسکول نہیں ہے۔ جب تک ہم وہاں پڑھتے ہیں تب تک منہوس لگتا ہے۔ لیکن یہ احساس تب ہوتا ہے جب ہم وہاں سے نکل آتے ہیں۔ پھر ہم یہ کہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ واقعی اے.پی.ایس.اے.سی.ایس ایک بہترین جگہ ہے۔

 

میں اپنی یہ پہلی مکمل تحریر اے.پی.ایس. اور APSACSIAN کے نام کرتی ہوں۔

 

میری دعا ہے کہ آنے والے امتحانات میں آپ سب لوگ کامیاب ہوں اور آسمانوں کی بلندیوں کو چھوئیں۔ آمین!

 

آپ کی دعاؤں کی طلبگار

❣️H.M HAKRO❣️

The H Family (APSACSIAN) By H.M HAKRO.txt

Open with Google Do

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.